* جس طرح آگ کی فطرت ہے بھڑک جاتی ہے *
غزل
جس طرح آگ کی فطرت ہے بھڑک جاتی ہے
بھوک انسان کے چہرے سے جھلک جاتی ہے
اس کے آنسو پہ نہ جا دوست کہ برکھا رت میں
سوکھی ندّی کو بھی دیکھا ہے چھلک جاتی ہے
یہ حقیقت ہے مصوّر کہ ترے ہاتھوں سے
کورے کاغذ کی بھی تقدیر چمک جاتی ہے
راہِ ہستی میں میرا حال وہی ہے جیسے
ٹوٹے پھوٹے ہوئے رستے سے ٹرک جاتی ہے
عشق کا راستہ روشن ہے کشادہ ہے مگر
بن کے ’’تسلیمہ‘‘ جو چلتی ہے بھٹک جاتی ہے
اس کی الفت نہ ہوئی شہر کی مچھلی منڈی
جس کی بازار سے باہر بھی مہک جاتی ہے
جن کو دیکھا ہے غلط راہ پہ چلتے ہم نے
ان کی اولاد بھی رستے سے بھٹک جاتی ہے
کس بلندی پہ خدا رہتا ہے اشرف میرا
جاتے جاتے میری آواز بھی تھک جاتی ہے
اشرف یعقوبی
6/2/H/1, K.B. 1st Lane
Narkeldanga, Kolkata-700011
Mob: 9903511902 / 9835628519
…………………………
|