* آنچ ہلکی بھی لگے گی تو پگھل جائے گا *
غزل
آنچ ہلکی بھی لگے گی تو پگھل جائے گا
کچا سونا ہے وہ ہر شکل میں ڈھل جائے گا
اک نئی چال میں شامل تھا پھسلنا اُس کا
میں نے سوچا وہ گرا ہے تو سنبھل جائے گا
دھوپ بانٹو نہ سرِ راہ بدن کی اپنی
دیکھ لے گا تمہیں سورج تو وہ جل جائے گا
اتنی جلدی کہاں پھلتے ہیں وفائوں کے شجر
پیڑ نفرت کے لگائو گے تو پھل جائے گا
گائوں کا ہیرا ہے شیشے میں اتارو نہ اُسے
کھوٹا سکّہ نہیں جو شہر میں چل جائے گا
اب تو یہ سوچنے کے دن بھی ہوا ہونے لگے
کانچ کی گولی سے بچہ ہے بہل جائے گا
داد کی بھیک طلب میں نہ کروں گا اشرف
میرے اشعار سنے گا جو مچل جائے گا
اشرف یعقوبی
6/2/H/1, K.B. 1st Lane
Narkeldanga, Kolkata-700011
Mob: 9903511902 / 9835628519
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
…………………………
|