* یہ کیا خبر تھی کہ وہ جسم و جاں سے لپٹ& *
غزل
یہ کیا خبر تھی کہ وہ جسم و جاں سے لپٹے گا
جلا جلا کے مرا دل دھواں سے لپٹے گا
بھٹکنے والا بیچارہ وفا کے جنگل میں
نہ ہوگا کوئی تو کوہِ گراں سے لپٹے گا
یہ کاروبارِ زمانہ ازل سے چلتا ہے
جو ہے بہار کا موسم خزاں سے لپٹے گا
لپیٹے جائیں گے جب دوجہان کے قصے
تو فرشِ خاک اسی آسماں سے لپٹے گا
پھر اس کے جسم سے پھوٹیں گے سچ کے فوّارے
جب اس کا جھوٹ بھی اس کی زباں سے لپٹے گا
لپٹ کے رویا بہت گھر سے چل پڑا جب وہ
اب آکے گائوں علیؔ کس مکاں سے لپٹے گا
غموں کی دھوپ میں چل کر جو آئے گا اشرف
تو کس ادا سے بتا سائباں سے لپٹے گا
اشرف یعقوبی
6/2/H/1, K.B. 1st Lane
Narkeldanga, Kolkata-700011
Mob: 9903511902 / 9835628519
…………………………
|