* کوئی تیر دِل میں اُتر گیا ' کوئی بات & *
کوئی تیر دِل میں اُتر گیا ' کوئی بات لب پہ اٹک گئی ! !
اے جنون تو نے بُرا کیا ' میری سوچ راہ سے بھٹک گئی
بڑھے روح و جسم کے فاصلے ، یہاں عزتوں کی تلاش ہے
جو کلی نویدِ بہار تھی ، وہی باغباں کو کھٹک گئ ! ! ! !
چلے جس کو تھے سبھی نوچنے ء یہاں باغبان و گل و ثمر
وہ کلی اُمیدِ سَحر بنی ، وہ کلی تو پھر بھی چٹک گئی !!
یہاں زندگی کی تلاش میں ، کئ ماہ و سا ل گزر گئے !
میری سوچ تختہءِ دار پر ، جو لٹک گئ ، سو لٹک گئی
|