نظم
رات کے پھیلتے سناٹوں میں
دل کے زندان میں اک یاد کا دیپک سا جلا
پھڑپھڑاتی ہے بہت لو اسکی
وادیِ ہجر سے آتی ہیں صدائیں جتنی
اس کے سینے میں بہت گونجتی ہیں
اِسم ِ ہجرت سے عجب سبز ہوا ہے زندان
اِک سکوں ہے کہ جو وحشت میں بھی آسودہ ہے
عاصمہ طاہر
*************