* ہمیشہ ہجرتوں کے سلسلے اچھےّ نہیں *
غزل
ہمیشہ ہجرتوں کے سلسلے اچھےّ نہیں لگتے
ہمیں اب روکھے پھیکے ذائقے اچھے نہیں لگتے
ستارے انکی منزل کا کبھی عنواں نہیں بنتے
جنہیں پرخاڑ رہنما راستے اچھے نہیں لگتے
مجھے اُڑ جانے دے میں کچھ فضا کا جائزہ لے لوں
سنہری پٹیوں سے پڑ بندھے اچھے نہیں لگتے
میں اپنی ہی جنوں سے ایک نیا عالم بناﺅںگا
مجھے پابند کرتے دائرے اچھے نہیں لگتے
فریدیؔ مصلحت ہے وقت کی خاموش ہوں ورنہ
مجھے ظالم کے آگے لب سلے اچھے نہیں لگتے
***** |