* دور جاکے خود سے خود کو آزمانا چاہت *
غزل
دور جاکے خود سے خود کو آزمانا چاہتا ہوں
روتے روتے تھک گیا ہوں مسکرانا چاہتا ہوں
دوستوں کی دوستی اپنوں پرایوں کا بھرم
ان سبھی رستوں کو پھر سے آزمانا چاہتا ہوں
میں کسی سے کچھ کہوں نہ کوئی مجھ سے کچھ کہے
پُر سکوں خاموش سی دنیا بسانا چاہتا ہوں
کب ہوا کیسے ہوا کیونکر ہوا کس نے کیا
اب کسی کاندھے پہ سر رکھ کر سُنانا چاہتا ہوں
کیوں مٹتے نہیں ہیں ذہن سے اس کے نقوش فریدیؔ
کِس لئے کِس کے لئے خود کو مٹانا چاہتا ہوں
*****
|