غزل
عزیز بلگامی…09845291581
اپنے خاموش سمندر میں بھنور پیدا کر
سیپیاں خالی نہ رہ جائیں ،گہر پیدا کر
اِلتجائیں تری جاکر کہاں رُک جاتی ہیں
اب کے گردوں میں کوئی راہ گزر پیدا کر
خواب لگتی ہیں دُعائوں میں اثر کی باتیں
ہو سکے تجھ سے تو شکوئوں میں اثر پیدا کر
ہم پہ احسان نہ کرنا، ترا احساں ہوگا
اپنی آنکھوں میں نہ محسن کی نظر پیدا کر
یہ چھلکتے تو ہیں، رُخسار پہ ڈھلتے ہی نہیں
آنسوئوں میں بھی ذرا عزمِ سفر پیدا کر
کٹ تو سکتا ہو جھکانے سے نہ جھکتا ہو کبھی
سر کوئی ایسا بھی اک شوریدہ سر پیدا کر
ذہن تھا سوچ میں جذبات ہوں پیدا کیسے
دفعتاً آئی صدا، دِل میں اُتر پیدا کر
اِتنے تاریک نہ تھے دن کے اُجالے اے عزیزؔ
میری خواہش ہے کہ توُ دن میں سحر پیدا کر
٭٭٭