غزل
عزیز بلگامی
بزمِ یاراں میں ہیںاخلاص کے پیکر کتنے
کتنے غمخوار ہیں، اِس صف میں ستمگر کتنے
دوستوں نے ہی کیا راز یہ افشا …ہم پر
آستینوں میں… چھپائے گئے خنجر کتنے
آج ہر فرد ہے بھٹکے ہوئے آہو کی طرح
قوم بکھری بھی نہ تھی …بن گیے رہبر کتنے
ڈوبتے جسم کی حرمت کے مناظر جیسے…!
سوچتا ہوں… نظرآجائیں گے منظر کتنے
بھیڑ کا…ایک ہی ریلے نے کیا کام تمام
کوہساروں میں ہیںلاشوں کے سمندر کتنے
شعر…اب تو بڑی مشکل سے نظر آ ئے گا
رہ گیے شہر میں اب… فن کے شناور کتنے
تیری غزلوں کے طلبگار کہاں گُم ہیں عزیزؔ
تیری محفل کے ہیں حالات مکدّر کتنے
*************