* آ مری جان! دل و جان کی باتیں کرلیں *
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
آ مری جان! دل و جان کی باتیں کرلیں
مشترک زیست کی پہچان کی باتیں کرلیں
حق ادا کیسے ہو خاطر کا، یہی فکر ہے بس
دل میں آئے نئے مہمان کی باتیں کرلیں
بے سکونی بھی ضروری ہے سکوں کی خاطر
بحر_ جذبات میں طوفان کی باتیں کرلیں
چھوڑ کر مجھ کو کسی اور کا ہونے والے
ایک کچلے ہوئے ارمان کی باتیں کرلیں
اہل_ ثروت کا بہت ذکر کیا ہے ہم نے
مجمع_ بے سروسامان کی باتیں کرلیں
جس نے رشتوں میں مچا دی ہے تباہی ہرسمت
اس روش، اس نئے رجحان کی باتیں کرلیں
کیا ہے ادراک، حقیقت میں یقیں کیا شے ہے
آؤ عرفان کی، احسان کی باتیں کرلیں
بحث ہوتی ہے کتب پر ترے جاوید بہت
آج کے دن ترے دیوان کی باتیں کرلیں
**** |