* جانے کیوں حسن کو کہتے ہیں شرابوں ج *
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
جانے کیوں حسن کو کہتے ہیں شرابوں جیسا
حسن سے عشق ہے سچا تو ثوابوں جیسا
آج الفت میں نہایا ہوا لگتا ہے بدن
رنگ و خوشبو میں ہے ہرانگ گلابوں جیسا
زیست میں آکے برستا کسی جھرنے کی طرح
اس کا آنا ہوا افسوس حبابوں جیسا
دور سے لگتا تھا وہ ہے، وہ نہیں تھا لیکن
اسکا چہرہ ہے فقط عکس سرابوں جیسا
ذہن میں اٹھتے سوالوں سے ہوا ہوں عاجز
پاس میرے ہے کہاں کچھ بھی جوابوں جیسا
ہم سفر سے ہوں ہم آہنگ تو رحمت ہے سفر
اور مزاجوں میں ہو دوری تو عذابوں جیسا
پیار کو اسکے سمجھتے تھے حقیقت جاوید
ہم کو کیا علم تھا نکلے گا وہ خوابوں جیسا
**** |