* تیری ہر ایک عطا بھول گیا *
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
تیری ہر ایک عطا بھول گیا
غم ہے کیا، درد ہے کیا، بھول گیا
وہ مری زیست سے کیا دور ہوا
میں تو جینے کی ادا بھول گیا
کیا گیا قرب، گئی لذت_ قرب
رنگ و خوشبوئے حنا بھول گیا
مہرباں مجھ سا ملے گا نہ کوئی
تیری ہر ایک خطا بھول گیا
پیار کے دو تھے نتیجے ممکن
دیکھا انعام، سزا پھول گیا
جا تو آزاد ہے، میں بھی آزاد
بے وفا! میں بھی وفا بھول گیا
خود سے ہی برسر_ پیکار ہوا
اور پھر چون وچرا بھول گیا
سیکھ لی میں نے بھی اب بیزاری
فقر تو کیا ہے، غنا بھول گیا
انکی چاہت تھی مرا سرمایا
آہ جاوید! یہ کیا بھول گیا
**** |