* ہمارے پاس بھی پرہوتے شہپروں جیسے *
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
ہمارے پاس بھی پرہوتے شہپروں جیسے
مزاج ہوتے نہ نازک کبوتروں جیسے
پگھل پگھل کے ہوئی راکھ شمع بیچاری
کہاں سے مٹتے اندھیرے سمندروں جیسے
نہ جستجو، نہ ہدف اور نہ ولولہ کوئی
ادارے ہو گئےامّت کے مقبروں جیسے
اگر ہو دوست تو دل بن کے کیوں نہیں ملتے
ہمیشہ کیوں نظر آتے ہو مشوروں جیسے
ہوئے ہیں جب سے گرفتارمشکلات میں ہم
ہوئے عزیز و اقارب بھی خنجروں جیسے
انھیں دکھاتے ہیں انداز نیولوں والا
مزاج رکھتے ہیں جو لوگ اجگروں جیسے
بتان_عشق سجے ہیں چہارسو جاوید
خدا پرست ہیں اوردل ہیں مندروں جیسے
***** |