* یہ عمر میں نے بھی یونہی نہیں گنوائ *
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
یہ عمر میں نے بھی یونہی نہیں گنوائی ہے
کسی کے دل کی تہوں تک مری رسائی ہے
یہ شعر کیا ہیں ترے بانکپن کا عکس_ سخن
غزل ہے کیا ترے جلووں کی انگڑائی ہے
کوئی بھی لمحہ تری یاد سے نہیں غافل
یہ کیسی یاد ہے پھر جو امڈ کے آئی ہے
اصول_ بزم رہیں یاد، موج کر انسان!
خدا نے بزم ترے ہی لئے سجائی ہے
یہ لعن طعن نہی حصہ میری فطرت کا
مرا جواب فقط میری بے نوائی ہے
کبھی کسی کو نہ ٹھوکر لگائیے لیکن
کسی سے آگے نکل جانا کب برائی ہے
خدائی کہتے ہیں دولت کو دوسری جاوید
مری نظر میں محبت بڑی خدائی ہے
***** |