* تمہیں سے پوچھتے ہیں بے وفائی کس نے *
غزل
ڈاکٹر جاوید جمیل
تمہیں سے پوچھتے ہیں بے وفائی کس نے کی
نہ تم نے کی تو مری جگ ہنسائی کس نے کی
پہل نہ کی کبھی تم نے، انا سے تھے مجبور
تمہارے دل کی تہوں تک رسائی کس نے کی
رہے ہمیشہ سے غیبت سے دور ہم اے دوست
ادھر ادھر یہ لگائی بجھائی کس نے کی
یہ حق تمہارا تھا محفل میں تم ہی اترائے
سوا تمہارے وہاں خودنمائی کس نے کی
تڑپ کے دل نے پکارا تو بول اٹھا کوئی
اندھیری رات میں یہ ہمنوائی کس نے کی
نہیں ہیں دور گناہوں سے اہل_ مشرق بھی
مگرزمیں پہ کھلی بے حیائی کس نے کی
سوا ہمارے تھے سب تیرے حکم سے مجبور
ارادتا تری کھل کر بڑائی کس نے کی
غریب و بیکس و بیمار کی دعائیں لیں
بتائیں مجھ سے زیادہ کمائی کس نے کی
بس ایک مورد_ الزام ٹھہرا تو جاوید
علاوہ تیرے نبرد آزمائی کس نے کی
***** |