* ملا تلاش کا کچھ بھی نہیں صلہ دن بھر *
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
ملا تلاش کا کچھ بھی نہیں صلہ دن بھر
میں اپنے پیروں کو دیتا رہا سزا دن بھر
گلاب میں تری خوشبو سی اور جھلک سی تھی
میں اس کو سونگھتا اور دیکھتا رہا دن بھر
گرفت سے مری نظروں کے وہ نہیں نکلا
اگرچہ پھرتا رہا وہ بچا بچا دن بھر
میں بند کمرے میں خوابوں سے ہم کلام رہا
مری تلاش میں پھرتی رہی صبا دن بھر
ہوئی جو رات تو عریاں تھی روح تک اسکی
بدن پہ جس کے شرافت کی تھی قبا دن بھر
لگا کہ جیسے سبھی گونگے اور بہرے ہیں
کہاں کہاں نہ پھرا میں پکارتا دن بھر
میں لوٹوں شام کو گھر تو ملے سکوں جاوید
تھے ہاتھ کام میں اور دل میں یہ دعا دن بھر
***** |