* موجود زندگی میں ہیں خوابوں کے نقش *
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
موجود زندگی میں ہیں خوابوں کے نقش بھی
مٹتے نہیں ہیں دل پہ سرابوں کے نقش بھی
تاریخ میں ہیں درج سیہ کاریوں کے رقص
تحریر ہیں زمیں پہ عذابوں کے نقش بھی
ہر وقت گمرہی کے نشاں ڈھونڈھتا ہے کیوں
انسان! دیکھ پاک کتابوں کے نقش بھی
پانی میں اٹھتے رہتے ہیں مٹنے کے واسطے
رہتے کبھی کہیں ہیں حبابوں کے نقش بھی
کانٹوں نے انگ انگ کو زخمی کیا مگر
جاوید روح پر ہیں گلابوں کے نقش بھی
**** |