غزل
ڈاکٹر جاوید جمیل
نہیں ہے توڑنا آساں مجھے، رواج ہوں میں
بدل نہ پاؤ گے یوں بیٹھ کے، سماج ہوں میں
جدھر سے آئے گی خوشبو ادھر ہی جاؤنگی
میں یوں تو چھوٹی سی تتلی ہوں، خوش مزاج ہوں میں
میں مسئلہ ہوں برائی کی قوتوں کے لئے
میں دین_ حق ہوں، مرض کوئی ہو، علاج ہوں میں
سنوارنے کی مجھے جد و جہد کر ناداں
جو کل تھا چھوڑ اسے، مجھ کو دیکھ، آج ہوں میں
میں خوب جانتا ہوں اپنا فرض اے جاوید
بکھیرتا ہوں میں انوار، اک سراج ہوں میں