غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
آنکھیں ہیں اگر پاس تو کچھ خواب بھی ہونگے
سینوں میں اگر دل ہیں تو بیتاب بھی ہونگے
رندوں کی ضرورت بھی ہے ساقی کے علاوہ
اور بزم سجیگی تو کچھ آداب بھی ہونگے
غیروں کے کہاں بس میں تھی اس درجہ کی سازش
شامل کہیں دیکھو مرے احباب بھی ہونگے
کپتان کو رکھنا ہے سبق یاد ہمیشہ
منزل کی طرف راہ میں گرداب بھی ہونگے
موتی سبھی یکساں ہوں کہاں ایسا ہوا ہے
کچھ عام تو کچھ گوہر_ نایاب بھی ہونگے
جاوید اطبا ہیں، دوائیں ہیں، دعا ہے
بیمار اگر ہونگے، شفایاب بھی ہونگے
********