غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
ہمارے درمیاں ہے سلسلہ دراصل کیا، طے ہو
کشش ہے یہ فقط یا پیار کی ہے ابتدا، طے ہو
کھڑے ہیں آج اس پل ہم سفر میں کس جگہ، طے ہو
ہمیں کرنا ہے کتنا اور طے اب فاصلہ، طے ہو
تمہیں ہم دیکھ ہی سکتے ہیں یا پھر پا بھی سکتے ہیں
ہمارے اختیاروں کا ہے کتنا دائرہ، طے ہو
ہمارے پیار کی شدت تو سارے جگ پہ ظاہر ہے
تمہارے پیار کی شدت کی کیا ہے انتہا، طے ہو
ہے جو بھی فاصلہ یہ درمیاں، مٹ جائے گا آخر
فقط یہ شرط ہے کہ بیچ کا یہ راستہ طے ہو
نظام_ عالمیں کس کے ہے تابع یہ تو اظہر ہے
نظام انسانیت کا کس کو مانے گا خدا، طے ہو
مرض کی ہو چکی تشخیص، اب آگے بڑھا جائے
ضروری ہے یہ اب جاوید کیا ہوگی دوا، طے ہو
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸