غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
جواب زیست کو ہرایک کیوں کا مل جائے
خرد کے ساتھ سہارا جنوں کا مل جائے
تمام عمر اسی انتظار میں گزری
کبھی کہیں کوئی لمحہ سکوں کا مل جائے
دل و دماغ پہ قبضہ ہے عشق_ دنیا کا
کہیں سے توڑ کوئی اس فسوں کا مل جائے
اسی تلاش میں باطل ہمیشہ رہتا ہے
کوئی بہانہ نیا حق کے خوں کا مل جائے
یہ لفظ عرصہ سےچسپاں ہے میرے حال کےساتھ
کوئی نیا متبادل "زبوں" کا مل جائے
اسی امید میں چارہ گروں سے ملتا ہوں
کوئی علاج غم_اندروں کا مل جائے
ٹکی ہے جس پہ عمارت نظام_باطل کی
سراغ کاش ہمیں اس ستوں کا مل جائے
ہر ایک شعر میں دھڑکن ہو دل کی سی جاوید
ہر اک غزل میں تری رنگ خوں کا مل جائے
--