غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
جوبھی واقعاتً گزرے، تھے تمام اتفاقا
کوئی شخص مل گیا تھا سر_ شام اتفاق
ا
ہے یہی اصول_دنیا، یہاں ہوتا ہے ہمیشہ
کوئی کام کوششوں سے کوئی کام اتفاقاً ً
وہ نہ جانے بات کیا تھی جو اسے ستا رہی تھی
تھا زباں پہ اسکے آیا مرا نام اتفاقاً
یہ نہیں میں چاہتا تھا ہو ہمارا کوئی چرچا
میں تجھے پکار اٹھا کھلے عام اتفاقا
تھا میں مدتوں سے پیاسا، نہ امید ہی تھی باقی
کوئی آکے بھر گیا ہے مرا جام اتفاقا
میں جسے سمجھ رہا تھا ترے پیار کی علامت
مرے پاس آ گیا تھا وہ سلام اتفاقا
مری چھت پہ چاند نی کی یہ پڑی پھوار کیسی
کوئی آ گیا کہیں سے سر_ بام اتفاقا
مری خوبیاں نہیں ہیں مری شہرتوں کی باعث
یہی سچ ہے مل گیا ہے یہ مقام اتفاقا
کوئی اس زمیں پہ سیتا ہوئی اپہرن ہراک پل
کہیں آ گیا چھڑانے کوئی رام اتفاقا
یہ نظام_ دین و دنیا نہیں ہے بغیر مقصد
کہا دہر نے بنا ہے یہ نظام اتفاقاً
ہوا کیسے فاصلہ طے، تجھے کیا بتائیں جاوید
چلے کوئی گام قصدا کوئی گام اتفاقا
*****************