غزل
جاوید جمیل
مرے وجود کا ہی جزوگمشدہ نکلا
وہ اجنبی تھا مگر جب ملا مرا نکلا
میں کیا سمجھتا رہا خود کو اور کیا نکلا
خیال تھا، ہوں خردمند، سرپھرا نکلا
لگائے جس پہ گئے تھے ہزارہا الزام
وہ برسوں بعد عدالت میں بے خطا نکلا
فساد کیسے بھڑک اٹھے، جب ہوئی تحقیق
تو سازشوں کا خطرناک سلسلہ نکلا
جسے پکڑ کے بلندی کو چھونا چاہا تھا
وہ دیکھنے میں تو رسا تھا، اژدہا نکلا
جسے حقیر سمجھتا رہا میں مدت تک
نہ جانے کتنے بڑے لوگوں سے بڑا نکلا
ا
کہ معجزے کو بھی درکار ہے عمل جاوید
عصا اٹھا تو سمندر میں راستہ نکلا
***********