غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
اتنا آساں کہاں سامان_ بقا ہو جانا
دل میں احساس_ فنا کا بھی فنا ہو جانا
عشق دراصل ہے بے لوث وفا ہو جانا
عشق کی راہ میں خود سے بھی جدا ہو جانا
انکے ماتھے پہ لکیریں نہیں آنے پائیں
انکے ہاتھوں کی لکیروں کی حنا ہو جانا
ہونٹ ناراض تھے، آنکھیں تھیں مجسم الفت
انکے بس میں ہی نہیں مجھ سے خفا ہو جانا
لاکھ کرتی ہو کسی بت کی پرستش دنیا
کیسے ممکن ہے بھلا بت کا خدا ہو جانا
بنتا ہے ایک مرض موت کا باعث ورنہ
ہر مرض کے لئے ممکن ہے شفا ہو جانا
اسکو ایماں کہو یا عشق _حقیقی جاوید
مرحلہ کوئی ہو راضی برضا ہو جانا
۸۸۸۸۸۸۸۸