غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
زیست نعمت نہ سہی، وقت کی گردش ہی سہی
ابر_ رحمت نہ سہی، آتش_ شورش ہی سہی
دل مرا آپکا ہے، جان مری آپکی ہے
آپکو مجھ سے سدا کے لیے رنجش ہی سہی
زیست میں آکے مری مجھ کو پرکھ لے اک بار
حکم تو چلتا نہیں تجھ پہ، گزارش ہی سہی
اس کے دامن میں میں مجھے بسنا ہے ہر حالت میں
سیدھے سیدھے نہیں مانے گا تو سازش ہی سہی
دل ترا مجھ پہ فدا، عقل کی مرضی کچھ اور
عقل ناراض ہے تو دل کی سفارش ہی سہی
پیارکے بدلے اسے پیار نہیں ہے منظور
اجر میں میری پرستش کے نوازش ہی سہی
لذت- وصل کا دریا نہ سہی قسمت میں
پردہ_ دید پہ دیدار کی بارش ہی سہی
جام کس کس کو پلا سکتا ہے ساقی آخر
جام حاصل نہ سہی، جام کی خواہش ہی سہی
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸