غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
تیری بڑھی کسی سے اگر آشنائی تو؟
کی تو نے مجھ سے بھول کے بھی بے وفائی تو؟
رہتا ہے سامنے ترے پیکر خلوص کا
تصویر پھر بھی دل میں کسی کی بسائی تو؟
ہم نے ترے دفاع میں خود کو کیا نثار
ہونے لگی ہماری کسی سے لڑائی تو؟
الزام کا لگانا تو آسان ہے بہت
ثابت اگر ہماری ہوئی بے خطائی تو؟
ہم تو پھنسے ہیں تیری محبّت کے جال میں
تو نے تھما دی اور کسی کو کلائی تو؟
تو میری بندگی پہ اٹھاتا رہا سوال
گھیرے میں ہو سوالوں کے تیری خدائی تو؟
جاوید قصہ سن کے ترا آنکھیں نم ہوئیں
گزری جو مجھ پہ میں نے اگر وہ سنائی تو؟
************