غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
شدید درد سے سر کو دبا کے بیٹھ گیا
تمہارے ہاتھ کا پتھر تھا، کھا کے بیٹھ گیا
نہیں میں بھولا زمانے سے ایک لمحے تو
وہ لمحہ بھر میں زمآنے بھلا کے بیٹھ گیا
جہاں میں مجھ سا کوئی بدنصیب کیا ہوگا
میں اپنے ہاتھوں نشیمن جلا کے بیٹھ گیا
چرا لیا ہے تو وہ مان لے علی الاعلان
نہ جانے کیوں وہ مرا دل چرا کے بیٹھ گیا
عمل کا وقت جب آیا قدم نہیں اٹھا
وہ صرف باتیں ہی باتیں بنا کے بیٹھ گیا
یہ اس کا فرض تھا ڈٹ کر مقابلہ کرتا
لڑے بغیر ہی گردن کٹا کے بیٹھ گیا
وہ بزم اس کی تھی جاوید کون تیرا تھا
بغیر داد کے غزلیں سنا کے بیٹھ گیا
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸