غزل
ڈاکٹر جاوید جمیل
ہمارے اپنے بھی ہم سے غرور بن کے ملے
جو ہم نوالہ تھے وہ بھی حضور بن کے ملے
اب انتظار ترا ختم، آ گئی ہے قضا
خدا کرے کہ تو جنت میں حور بن کے ملے
قصوروار بنا ڈالا، بے قصور تھے ہم
قصوروار جو تھے بے قصور بن کے ملے
غنائیت نے بدل ڈالی منطق_احساس
کہ لمحے غم کے بھی ہم سے سرور بن کے ملے
بدل گئی ہیں اچانک زمانے کی قدریں
جو با شعور تھے وہ بے شعور بن کے ملے
شراب چکھنے کی رکھتے ہیں آرزو ہم بھی
مگر شراب شراب_طہور بن کے ملے
خطا خود اسکی ہے دنیا میں ہے اگر ظلمت
صحیفے کتنے ہی دنیا کو نور بن کے ملے
گناہگار ہیں لیکن ہے یہ دعا جاوید
خدا ہمیں بھی ملے اور غفور بن کے ملے
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸