غزل
ڈاکٹر جاوید جمیل
زنگی کیا ہے فقط پیچیدگی بےسود سی
ہر قدم ہر لمحہ اک بیچارگی بے سود سی
تو اگر مل جائے تو ہو جائے شاید سودمند
ورنہ ہے فالحال یہ دیوانگی بےسود سی
حسن کے جلوے دکھا، ناز و ادا شامل رہے
آجکل لگنے لگی ہے سادگی بےسود سی
خواہشیں اور حسرتیں پوری نہ ہونگی جو کبھی
ہے محبت اور کیا بس تشنگی بےسود سی
دردمندی ہے دلوں میں تو زمیں پر روشنی
اور نہیں ہے تو ہر اک سو تیرگی بے سود سی
لاکھ روکا پھر بھی ہوتی ہی رہیں گستاخیاں
لگ رہی ہے عمر بھر کی بندگی بےسود سی
چند بے ہنگم خیال اور چند پیچ افکار کے
شاعری جاوید ہے وارفتگی بےسود سی
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸