غزل
جاوید جمیل
تھا یقین رکھے گا شوق سے مرا پیار خوب سنبھال کر
نہ پتہ تھا پھینکے گا اس طرح مجھے دل کی تہہ سے نکال کر
مرے احتجاج کا ہے سبب، مجھےغیر کیسے بنا دیا
مرا تجھ سے ہے یہ مطالبہ کہ مرا مقام بحال کر
میں بھلا چکا تری بھول کو، تو مری خطاؤں کو بھول جا
نہ میں تجھ سے مانگوں جواب اب ، نہ تو مجھ سے کوئی سوال کر
مجھے اور کتنا رلائے گا، مجھے اور کتنا ستائے گا
کبھی بھول کر مری التجا، کبھی میری بات کو ٹال کر
جو حسد میں ڈوبے رقیب ہیں، چلو انکو اور جلائیں ہم
کبھی آنکھیں آنکھوں میں ڈال کر، کبھی باہیں باہوں میں ڈال کر
جو بھی قدر تھی مری بزم میں، وہ تمام مل گئی خاک میں
مرے دوست آج ہیں خوش بہت مری عز و جاہ اچھال کر
تجھے زندگی ہے عزیز کب، تجھے اقتدار سے پیار ہے
تو ہے آدمی تو زمین پر نہ جدال کر، نہ قتال کر
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸