غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
دشت_فرقت میں تری یاد کی آغوش، غضب
لب تھے گویا ترے اور میں ہمہ تن گوش، غضب
سرسراہٹ تھی محبت کی فقط اور ہم تھے
جس طرف دیکھیے، ماحول تھا خاموش، غضب
یاد کے ہونٹوں پہ رقصاں تھے سریلے نغمے
جسم بیہوش تھا اور جان تھی مدہوش، غضب
ایسا لگتا تھا، ہر اک خار ہوا ہے معدوم
ایسا لگتا تھا چمن سارا تھا گل پوش، غضب
منفرد ذائقه ہر ایک جھلک کا نکلا
میں نے ہر لقمہء دیدار کیا نوش، غضب
جلوہ افروز ہوا حسن بھری محفل میں
ہوش میں لگتا نہیں تھا کوئی ذی ہوش، غضب
ایسا لگتا تھا، مٹا ڈالے گا مجھ کو جاوید
یادوں کا ایک تلاطم سا تھا پرجوش، غضب
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸