غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
جو میری یاد میں ہو اشکبار، کوئی تو ہو
جو مجھ سے کرتا ہو بے لوث پیار، کوئی تو ہو
مری وفا کا صلہ جو وفا کی شکل میں دے
وہ جس پہ مجھ کو بھی ہو اعتبار، کوئی تو ہو
جسے پکاروں اگر تو وہ دوڑ کر آئے
ہو جس پہ میرا بھی کچھ اختیار، کوئی تو ہو
میں گھر کو لوٹوں تو ہو خوشبوؤں سے استقبال
نظر جو میرا کرے انتظار، کوئی تو ہو
جسے میں بھولنا چاہوں اگر، بھلا نہ سکوں
مرے حواس کے اوپر سوار کوئی تو ہو
نہ غوث وقطب سہی، کم سے کم ہو مرشد ہی
جہاں ہوں سیر سبھی، آبشار کوئی تو ہو
بڑھانے والے تو ہیں انگنت یہاں جاوید
جو کرنے والا ہو کم انتشار، کوئی تو ہو
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸