* مسکرانا کبھی نہیں ہوتا *
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
مسکرانا کبھی نہیں ہوتا
کچھ بہانہ کبھی نہیں ہوتا
انکی خوشبو تو آتی رہتی ہے
انکا آنا کبھی نہیں ہوتا
یہ کہ وہ مجھ سے پیار کرتے ہیں
آزمانا کبھی نہیں ہوتا
سادگی ایک ایسا فیشن ہے
جو پرانا کبھی نہیں ہوتا
فضل_ رب ہے سکون رہتا ہے
گو خزانہ کبھی نہیں ہوتا
موڈ کتنا بھی ہو خراب مگر
بڑبڑانا کبھی نہیں ہوتا
قلب ہوتا ہو یا نہ ہوتا ہو
نفس دانا کبھی نہیں ہوتا
ذھن رہتا ہےکیوں اسیر_ زماں
عارفانہ کبھی نہیں ہوتا
گھر ہے میرا بہشت سا جاوید
جشن مانا کبھی نہیں ہوتا
|