* ہم نظریں ملاتے ہیں، وہ نظریں چرات® *
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
ہم نظریں ملاتے ہیں، وہ نظریں چراتے ہیں
ہم پاس بلاتے ہیں، وہ دور بھگاتے ہیں
پیمانے اچھلتے ہیں، محفل میں ہر اک جانب
بیٹھے ہوۓ کونے میں ہم سوگ مناتے ہیں
کیوں رد_عمل الٹا ہوتا ہے خدا جانے
جب ہنستا ہے کوئی بھی آنسو نکل آتے ہیں
دیوانوں کی دنیا میں کس کام کے دانشور
ہم خود کو مٹاتے ہیں وہ خود کو بچاتے ہیں
جو عقل کے راہی ہیں ہنگامہ نہیں کرتے
جو عقل سے پیدل ہیں وہ شور مچاتے ہیں
تعبیر کی پرواہے ہم کو کہاں کوئی بھی
اتنا ہی کہاں کم ہے ہم خواب سجاتے ہیں
جاوید ہمیشہ سے عشاق کی قسمت ہے
دھن پرانھیں الفت کی معشوق نچاتے ہیں
******* |