* مدت ہوئی ہے یار کے درشن ہوئےہوئے *
مدت ہوئی ہے یار کے درشن ہوئےہوئے
تر عشق کے سرور سے دامن ہوئےہوئے
دل مضطرب ہے کیسے ہو آغاز_ گفتگو
گزا ہے ایک پل ابھی ان بن ہوئےہوئے
تاریکیاں ابھی بھی ہیں باقی نہ جانے کیوں
عرصہ ہوا ہے صبح کو روشن ہوئےہوئے
خواب و خیال و فکر پہ صحرا سوار ہے
سالوں ہوئے ہیں زیست کو ساون ہوئےہوئے
بہتر ہے خود ہی آپ ہوں اب اپنا آئینہ
میں تھک گیا ہوں آپ کا درپن ہوئےہوئے
تفریح ہے نہ کوئی ہے مستی نہ کھیل کود
مدت ہوئی ہے عمر کو بچپن ہوئےہوئے
جاوید اب نکال کوئی فلسفہ نیا
صدیاں ہوئی ہیں فکر میں منتھن ہوئےہوئے
****** |