* کہاں تو ہوتا ہے اور تو کہاں نہیں ہ *
غزل
ڈاکٹر جاوید جمیل
کہاں تو ہوتا ہے اور تو کہاں نہیں ہوتا
عیاں بھی ہوتا ہے پھر بھی عیاں نہیں ہوتا
جمال یار ہوا حسن_ کائنات ہوا
جو ذرّہ بھر بھی کسی سے بیاں نہیں ہوتا
ترے بغیر کہانی ادھوری رہتی ہے
ترے بغیر فسانہ جواں نہیں ہوتا
کہاں سے لاؤں وہ دیوانگی، وہ شوق، وہ فکر
جو دل میں ہوتے تو کچھ بھی نہاں نہیں ہوتا
جمود آتا ہے , ممکن اگر فرار نہ ہو
زمیں نہ چلتی اگر آسماں نہیں ہوتا
حصار چاہیے گنجائش_ فرار کے ساتھ
کسی کے ہاتھوں کسی کا زیاں نہیں ہوتا
مرا مزاج سمجھتا ہے دوست سچا ہے
کسی بھی حال میں وہ بدگماں نہیں ہوتا
وہ لمحہ دیر سے آتا ہے عشق میں جاوید
حجاب کوئی بھی جب درمیاں نہیں ہوتا
|