* جیسی ہے بدن میں گل رخ کی، ویسی ہی نز *
غزل
ڈاکٹر جاوید جمیل
جیسی ہے بدن میں گل رخ کی، ویسی ہی نزاکت باتوں میں
ہونٹوں میں ہے جتنی شیرینی، اتنی ہی حلاوت باتوں میں
کیا خوب توازن چلنے میں، کیا خوب لطافت ہنسنے میں
کیا خوب اداؤں میں شوخی، کیا خوب شرارت باتوں میں
حل سارے مسائل ہو جائیں، آپس کی کدورت مٹ جائے
ہو جھوٹ سے سب کو بیزاری، ہو رنگ_صداقت باتوں میں
اس دور کے شاعر میں لوگو، تهذیب و شعور و سوز کہاں
معیار وہی ہے شعروں کا، جیسی ہے جہالت باتوں میں
جاوید عجب احباب ترے کرتے ہیں یہ ضائع وقت ترا
ہیں علم سے کوسوں دور مگر، پھر بھی ہے طوالت باتوں میں
(پہلے مجموعہ "رہگزر" ١٩٩٨ سے)
****** |