* زندگی تو ہے تو رسوائی بھی ہے دنیا م *
غزل
ڈاکٹر جاوید جمیل
زندگی تو ہے تو رسوائی بھی ہے دنیا میں
مہرباں ہو تو پذیرائی بھی ہے دنیا میں
ہاں، برائی بھی بہت ہے مگر اے چشم_ خرد
غور سے دیکھ تو اچھائی بھی ہے دنیا میں
مسئلے اور بھی ہیں تیری تمنا کے سوا
مجھ کو کچھ شوق_ مسیحائی بھی ہے دنیا میں
میرے کانوں نےسنا صرف سدا دیپک راگ
لوگ کہتے ہیں کہ شہنائی بھی ہے دنیا میں
ہوکے زلفوں میں تری قید یہ احساس ہوا
ایک گلشن کی سی رعنائی بھی ہے دنیا میں
تو نے جب پیار سے دیکھا تو گماں دل کو ہوا
کوئی شاید مرا شیدائی بھی ہے دنیا میں
جلوہ افروز حماقت ہے یہ مانا جاوید
تھوڑی تھوڑی کہیں دانائی بھی ہے دنیا میں
****** |