* جو سمایا ہے مری جان میں حسرت بن کر *
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
جو سمایا ہے مری جان میں حسرت بن کر
کاش آ جائے وہ باہر کوئی صورت بن کر
جانے ان راتوں کو کیا ضد ہے سکون_ دل سے
روز آتی ہے نئی شب نئی شامت بن کر
اور کیا ہوگی مری زیست سے بدتر دوزخ
کاش آ جائے قضا کنجیء جنّت بن کر
تجھ سے شکوہ نہ کروں تو کہاں جاؤں یا رب
مجھ سے بچے مرے ملتے ہیں شکایت بن کر
بے تکلّف نہیں ہے یار تو یاری کیسی
یار جاوید نہ مل حرف_ نصیحت بن کر
***************** |