* اب انتظار میں یہ ہو گیا ہے حال مرا *
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
اب انتظار میں یہ ہو گیا ہے حال مرا
وہ آئے بھی تو لگے گا کہ ہے خیال مرا
تجھے خدا نے بنایا فقط مری خاطر
ترا جمال نہیں ہے، یہ ہے جمال مرا
یہی دراصل بنے گا عروج کا ضامن
سمجھ رہا ہے زمانہ جسے زوال مرا
وہ بد دعائیں دلوں میں ہزار دیتے ہیں
جو روز پوچھتے ہیں ہنس کے حال چال مرا
قلم، زبان، قدم تینوں ہی اٹھاتا ہوں
زمانہ کب یہ کہیگا یہ ہے کمال مرا
لکھا ہے کاتب_ تقدیر کی اجازت سے
لکھا مگر مرے ہاتھوں نے ہی زوال مرا
خوشی کا رقص ہے جاری ہزاروں چہروں پر
خبر یہ پھیل گیی ہو گیا وصال مرا
مرے جہاد کی منزل سلامتی کا حصول
لڑا تو ہوگا یہی مقصد_ قتال مرا
ہو زخم کتنا بھی گہرا، پلوں میں بھرتا ہے
طبیب صبر ہے جاوید بے مثال مرا
****************** |