* نہ جانے آئے کہاں صبح، گزرے شام کہا *
نہ جانے آئے کہاں صبح، گزرے شام کہاں
سفیر ہوں، مری تقدیر میں قیام کہاں
ابھی تو دوستو! اس قافلے کا بچپن ہے
ابھی سے نظم_ بلاغت کا اہتمام کہاں
جہاں غموں کا تصور نہ ہو نہ خوشیوں کا
مرے سلوک میں وہ آخری مقام کہاں
دکھائی دیتے ہیں نظروں کو پھول یا کانٹے
ہمارے ذہن میں پتوں کا احترام کہاں
سمیٹ لیجیے سامان_ آخرت جاوید
نہ جانے زیست کا ہو جائے اختمام کہاں
************************ |