* کر رہا ہے یہاں خطا کوئی *
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
کر رہا ہے یہاں خطا کوئی
پا رہا ہے مگر سزا کوئی
بکھری اک چاندنی سی چہروں پر
دیکھو، آتا ہے چاند سا کوئی
دل سبھی کے سفر پہ نکلے ہیں
بزم میں ہے غزل سرا کوئی
جیسے وہ ہو گئے جدا مجھ سے
یوں کسی سے نہ ہو جدا کوئی
لڑکیوں سا پرایا ہوتا ہے دل
لے ہی اڑتا ہے دلربا کوئی
کہتا ہے پیار کو حدود میں رکھ
پیار کی بھی ہے انتہا کوئی؟
اے خدا تو سمیع ہے تو سن
دے رہا ہے تجھے صدا کوئی
اس کی رگ رگ میں شرک ہے پیوست
ڈھونڈھ لایا نیا خدا کوئی
جس کو پہنوں تو میں لگوں عالم
ایسی لا دو مجھے قبا کوئی
بزم والو! گواہ سب رہنا
دے رہا ہے مجھے دغا کوئی
چھیڑخانی ہمیں سے کیوں جاوید
کیا نہیں ملتا دوسرا کوئی ؟
**************** |