* ہوتے جدا نہ کاش ابھی گلستاں سے ہم *
ہوتے جدا نہ کاش ابھی گلستاں سے ہم
پردہ اُٹھا رہے تھے بہار وخزاں سے ہم
تم جس گھڑی ملے تھے بچھڑنے کے واسطے
اب اس گھڑی کو ڈھونڈ کے لائے کہاں سے ہم
منسوخ کفر و دیں کے فسانے ہیں اس جگہ
باہر ہیں اب احاطہ کون و مکاں سے ہم
آغاز کا ثبوت نہ انجام کا یقین
ایسے کٹے ہوئے ہیں کسی داستان سے ہم
احسان کھلنے والا ہے بابِ حریم قبر
اُترے کھڑے ہیں تو سن عمرِرواں سے ہم
٭٭٭
|