* وہ سو کر اٹھ رہے ہیں اللہ اللہ کیا ن *
وہ سو کر اٹھ رہے ہیں اللہ اللہ کیا نظارا ہے
قیامت نے ابھی کروٹ بدل کر سر ابھاراہے
جوانی نے اُسے اس خوش مذاقی سے سنوارا ہے
نہ عرض شوق کی جرات، نہ ضبطِ غم کا یارا ہے
سحر ہوتے ہی وہ اس طرح شرماکر سدھارا ہے
کہ مجھ کو عمر بھر اب رنجِ محرومی گوارا ہے
کہاں صحرا نوردی اور کہاں دیدار کی حسرت
میری دیوانگی تیرے تغافل کا ارشارا ہے
معطّرکو سانس ، چہرہ رشک گل ِ، مستی بھری آنکھیں
جوانی ہے کہ اک سیلاب رنگ و بو کا دھارا ہے
تمہاری یاد ہے میری کتابِ غم کا دیباچہ
خدا رکھے یہی ٹوٹے ہوئے دل کا سہارا ہے
ستم کو کیا ستم سمجھوں جفا کو کیا جفا جانوں؟
وہی جور آشنا جب زندگانی کا سہارا ہے؟
ہوا مغموم، منظر مضمحل ، ماحول افسردہ
مجھے اے نا خدا کس گھاٹ تونے لا اتارا ہے
وفا کی آرزو لغزش ہے اک خوش اعتقادی کی
مجھے احسان اکثر دوستوں نے مل کے مارا ہے
٭٭٭
|