* نظرپہ جلووںکی حکمرانی دلوں پہ مای *
نظرپہ جلووںکی حکمرانی دلوں پہ مایوسی کا پانی
اگر چھڑا لے امید دامن کہاں ٹھکانا ہے آدمی کا
زمیں کے ذروں پہ خوابی طاری فلک پہ تاروں کی بند آنکھیں
یہ زندگی کی سحر ہے کیسی سماں ہے سب شامِ زندگی کا
ہو ختم اب جانکنی کا منظر نگاہ سجدے میں جھک گئی ہے
خدا خدا کرکے مدتوں میں خمار ٹوٹا ہے زندگی کا
دلوں کے دولت کدے ہیں خالی وفا کے جوہر نہیں کسی میں
دہائی اے دشمنوں دہائی فریب خوردہ ہوں دوستی کا
ہر ایک سجدہ ہو ا نمایاں خودی کے دامن پہ داغ بن کر
خدا سے بھی منحرف ہوں جب سے مال دیکھا ہے بندگی کا
٭٭٭
|