* خدا کی دین ہے وہ عجز عشق بھی جس میں *
خدا کی دین ہے وہ عجز عشق بھی جس میں
غرورِ حسن کے انداز پائے جاتے ہیں
فغاں فغاں ! کہ جنہیں مار آستیں کہئے
وہ لوگ میرے رفیقوں میں پائے جاتے ہیں
مری وفا پہ نہ جا حسن کی شکست کو دیکھ!
تری جفا کے قدم ڈگمگائے جاتے ہیں
اگرچہ اب مجھے غم راس آگیا لیکن
کسی کے لطف و کرم یاد آئے جاتے ہیں
وصال و ہجر کے پردے میں رات دن احسان
حیات و موت کے خاکے بنائے جاتے ہیں
٭٭٭
|