* حدِّنظر تک اپنے سوا کچھ وہاں نہ تھ *
حدِّنظر تک اپنے سوا کچھ وہاں نہ تھا
میں وہ زمین جس کاکوئی آسماں نہ تھا
سب میں کرایے داروں کے پایے گیے نشاں
جسموں کے شہر میں کوئی خالی مکاں نہ تھا
بچپن کے ساتھ ہوگیے بوڑھے تمام ذہن
ہم مفلسوں کے گھر میں کوئی نوجواں نہ تھا
چہرے سبھی کے لگتے تھے مہمانوں سے مگر
خود کے سوا کسی کا کوئی میزباں نہ تھا
لذت نہ مل سکی مری تخئیل کو کبھی
ورنہ مرے گناہ کا موسم کہاں نہ تھا
**** |