* اپنے ہی معنٰی کا لفظوں پر اثر کوئی *
اپنے ہی معنٰی کا لفظوں پر اثر کوئی نہیں ہے
مستند کتنے بھی ہوں اب معتبر کوئی نہیں ہے
کیا المیہ ہے سنہرے موسموں کے کارواں کا
سب سفر میں ہیں‘ کسی کا ہمسفر کوئی نہیں ہے
آخرش کب تک مکانوں میں مجھے رہنا پڑے گا
کیا مرے ہاتھوں کی ریکھاؤں میں گھر کوئی نہیں ہے
کس کی خاطر اوڑھ رکّھی ہے ردائے انتظاراں
اس نئی رُت میں کسی کا منتَظر کوئی نہیں ہے
گل نظر آتا نہیں تو نرگسِ بے نورہے کیا
اہلِ دیدہ ہیں یہاں سب‘ دیدہ ور کوئی نہیں ہے
صبر کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے آزرؔ وگرنہ
ان درختوں پر مری خاطر ثمر کوئی نہیں ہے
**** |