* عجیب عزمِ سفر مختصر سی جان میں ہے *
عجیب عزمِ سفر مختصر سی جان میں ہے
لہولہان ہے پنچھی مگر اڑان میں ہے
بچاؤں لاکھ مگر بھیگ بھیگ سا جائے
وہ ایک عکس جو پلکوں کے سائبان میں ہے
چراغِ آرزو بجھنے بھی تو نہیں دیتا
وہ ایک آس کا پنچھی جو آسمان میں ہے
نحیف پھولوں میں باقی ہے رس ابھی شاید
کہ تتلیوں کا ٹھکانا ابھی بھی لان میں ہے
ذرا سا لمس اُسے چُور چُور کردے گا
وہ ایک شیشہ بدن مرمریں مکان میں ہے
اب اس جبیں کو سند ہائے کامیابی دے
ازل سے بیکراں سجدوں کے امتحان میں ہے
**** |