* وہ لے رہا تھا مرا امتحان قسطوں میں *
وہ لے رہا تھا مرا امتحان قسطوں میں
خبر نہ تھی کہ نکالے گا جان قسطوں میں
تمام عمر بھٹکتا رہا میں خانہ بدوش
خرید بھی نہ سکا اک مکان قسطوں میں
تما م قرض ادا کرکے ’ساہُکاروں‘ کا
بچا ہی لوں گا بزرگوں کی آن قسطوں میں
ہر ایک شخص سناتا ہے نت نئے ڈھب سے
بدل نہ جائے مری داستان قسطوں میں
ہم ایک ساتھ نہیں کرتے گھر کی آرائش
ہم ایسے لوگ بڑھاتے ہیں شان قسطوں میں
بسا رہا ہے ہر اک فرد اک الگ ہی جہاں
بکھر رہا ہے ہر اک خاندان قسطوں میں
ہم اپنے بچوں کو اردو سے رکھ کے ناواقف
مٹارہے ہیں سنہری زبان قسطوں میں
یہ کیا ہوا کہ بڑھاپا اچانک آ پہنچا
ہمارے بچے ہوئے تھے جوان قسطوں میں
اگر ہماری یہی بے حسی رہی آزرؔ
مٹا ہی دے گا وہ نام و نشان قسطوں میں
**** |